سنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
सुना है इसका संबंध खराब परिस्थितियों से है इसलिए वे खुद को नष्ट करने की कोशिश करते हैं
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
मैंने सुना है कि जब वे बोलते हैं तो उनकी बातों से फूल झड़ जाते हैं बस, बात करते हैं और देखते हैं
سنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
मैंने सुना है कि चाँद रात को उसे घूरता है तारे आसमान से नीचे देखते हैं
سنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
मैंने सुना है कि उसकी चकाचौंध जैसी आंखें कयामत का दिन हैं मैंने सुना है कि हिरण उसे पूरे रेगिस्तान में देखता है
سنا ہے اُس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اُس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
मैंने सुना है कि उसकी अँधेरी आँखों का समय है तो व्यापारी उसे आह भरी निगाहों से देखते हैं
سنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ اِلزام دھر کے دیکھتے ہیں
मैंने उसके होठों से गुलाब जलते हुए सुना तो हम वसंत में दोष देखते हैं
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویئے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
मैंने इसे संभावनाओं के क्षेत्र में कल्पना की दृष्टि से सुना है बिस्तर के कोण उसकी पीठ को देखते हैं
بس اک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
बस एक नज़र दिल का कारवां लूट लेती है तो अभ्यर्थी भी भय की दृष्टि से देखते हैं
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
अब अपने शहर में रहने के लिए कोच
आइए देखें सितारों की यात्रा
👇 یہ پوری غزل 👇
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اُس کے شہر میں کچھ دِن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اُس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ اِلزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اُس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویئے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گلِ مراد نہیں
کہ اُس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اُسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اُس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
उन्होंने प्यार के आरोप को वफादारी के अध्याय में नहीं लिया कि उसने तुमसे बात की और तुम्हारा नाम तक नहीं लिया
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
तेरे बाद कई हाथ दिल की तरफ बढ़ते हैं हमने एक हजार आभारी गरीब लोगों को स्वीकार नहीं किया
تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے
کسی نے سنگ اُٹھایا ، کسی نے مینا لیا
लॉबी की सारी मस्ती और प्यास किसी ने पत्थर उठाया तो किसी ने मोमबत्ती
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
फ़राज़ क्रूर है, तो आत्मविश्वास भी है रात हो गई थी और उसने एक गहरा दीया भी नहीं लिया था
👇 یہ پوری غزل 👇
وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
خوشا وہ لوگ کہ محرومِ التفات رہے
ترے کرم کو بہ اندازِ سادگی نہ لیا
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے
کسی نے سنگ اُٹھایا ، کسی نے مینا لیا
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
احمد فراز
0 Comments