Ali zaryon poetry

 علی زریون شاعری 



پہلے پہل لڑیں گے تمسخر اڑائیں گے

جب عشق دیکھ لیں گے تو سر پر بٹھائیں گے


تو تو پھر اپنی جان ہے تیرا تو ذکر کیا

ہم تیرے دوستوں کے بھی نخرے اٹھائیں گے


غالبؔ نے عشق کو جو دماغی خلل کہا

چھوڑیں یہ رمز آپ نہیں جان پائیں گے


پرکھیں گے ایک ایک کو لے کر تمہارا نام

دشمن ہے کون دوست ہے پہچان جائیں گے


قبلہ کبھی تو تازہ سخن بھی کریں عطا

یہ چار پانچ غزلیں ہی کب تک سنائیں گے


آگے تو آنے دیجئے رستہ تو چھوڑیئے

ہم کون ہیں یہ سامنے آ کر بتائیں گے


یہ اہتمام اور کسی کے لئے نہیں

طعنے تمہارے نام کے ہم پر ہی آئیں گے


علی زریون 

YouTube video Link 🔗👇

https://youtu.be/8zkpdGgWQVc 


Original video download 👇

Ali zaryon poetry 


غزل 
کچھ دبی دبی آوازیں ہیں 
کچھ گھٹی گھٹی سی آہیں ہیں 
کچھ اشک ہیں قیدی آنکھوں کے 
جو خاک میں مل جانے والے 
ہیروں کے دکھ پہچانتے ہیں 
اک جملہ بھر آزادی ہو 
یہ دبی دبی سی آوازیں 
بولیں تو حشر مچا ڈالیں 
اک سطر برابر حصہ ہو
تو قیدی آنکھوں کے آنسو 
اک شہ سرخی کو لکھ ڈالیں 

افسوس تو بس یہ ہے کہ علی 
افسوس بھی سنسر ہوتا ہے 
کوئی تازہ قبر بنی ہے کہیں 
کوئی بوڑھا ہے جو روتا ہے !!! 




غزل 
میرے احباب اسی گھر میں اکھٹے ہوں گے 
سوز و مدحت کے لئے ، مرثیہ خوانی کے لئے
وہ مرا گھر ! کہ جو شاید مرا گھر تھا بھی نہیں 
جس کی ایک ایک نشانی سے بندھے ہیں اب تک 
میری غزلوں کے ستارے مری نظموں کے دئیے 
جس کے ٹیرس پہ مری شام فدا رہتی تھی 
اک تمنا تھی کہ جو مجھ سے خفا رہتی تھی 
پھر اُسی گھر میں اُسی در پہ اکھٹے ہوں گے 
میرے احباب ! برائے غمِ شبیر ع وہاں 
جب وہاں مرثیہ خوانی کی صدا گونجے گی 
تعزیہ سا کوئی اٹھے گا مرے دل سے ! یہاں ! 




غزل 
رحیم دن تھے ! شفق دھوپ تھی ، سجل شامیں 
اِنہی دنوں میں مرا تجھ سے رابطہ ہوا تھا ! 

مرے خلاف ترے کان کیوں نہ بھرتے یہ لوگ 
تری جبیں پہ مرا نام جو لکھا ہوا تھا ! 

سو، ماں کی قبر پہ پہنچا ! لپٹ کے رونے لگا 
دلیر بیٹا کسی بات پر دُکھا ہوا تھا 





غزل
اک شوق میں آئے تھے ملاقات کو تیری !
اک رنج میں اب تجھ سے پرے جاتے ہیں ہم لوگ ! 

اب اس کو عزاداری سمجھ یا کوئی پرسہ ! 
دہلیز پہ کچھ پھول دھرے جاتے ہیں ہم لوگ 

نیلے تھے ! جب آئے تھے پناہوں میں تمھاری 
اک لمس سے اب ہو کے ہرے جاتے ہیں ہم لوگ 

جانا ہے علی ! شام کے دربار کی جانب 
سینوں پہ سجائے شَجَرَے جاتے ہیں ہم لوگ !!
Ali Zaryoun 




غزل 
تہمتیں تو تمغہ ء تصدیق ہیں 
تہمتوں سے کیسا گھبرانا علی ؟؟ 

کیا کہِیں دیکھا ؟؟ خدا لگتی کہو 
اس قدر با ہوش دیوانہ ؟ علی ؟؟ 

خاص ہے اپنے نظام و نام میں 
ساقی ء کوثر کا مے خانہ علی
(صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) 

اہلِ شور و شر کے ہر بازار سے 
بس خموشی سے گزر جانا علی 

آمدے در مجلسِ احوالیاں
دل بدست و سینہ چاکانہ علی ! 

در نگاہِ من بفیضِ حسنِ اُو 
شد برابر باغ و ویرانہ علی !! 

بر سرِ لوحِ ازل مرقوم است
سید و جانان و جانانہ علی !!! 


Post a Comment

0 Comments