سید جون ایلیاء صاحب کی شاعری
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
میں تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروت ہو
تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
#جون_ایلیا
YouTube video Link 🔗👇
https://youtube.com/shorts/tlSCWG4ajfg?feature=share
Original video download
👇
Jon elia poetry
Another video download link
Jon elia sad poetry
غزل
ہم بھی کچھ دن ہی اداسی کا بھرم رکھیں گے
اور کچھ کھیل دکھائیں گے....چلے جائیں گے🍁
مجھ کو معلوم ہے مرنے کی سہولت یارو
لوگ کاندھوں پہ اٹھائیں گے....چلے جائیں گے🍂
میرے احباب جو کرتے ہیں محبت مجھ سے
وہ بھی آنسو ہی بہائیں گے....چلے جائیں گے🍁
جس کو بھی ہم تھے میّسر ، میّسر نہ ہوا
اب کے تلخی یوں دکھائیں گے....چلے جائیں گے.🍂
مثرہ
توُ نے بھی اپنے خدوخال ، جانے کہاں گنوا دئیے
میں نے بھی اپنے خواب کو ، جانے کہاں گنوا دیا
تو میرا حوصلہ تو دیکھ ، میں بھی کب اپنے ساتھ ہوں
تو میرا کرب جاں تو دیکھ ، میں نے تجھے بھلا دیا
جون ایلیاء"🖤
غزل
تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو اور میں دل میں شرمندہ ہوں
اپنے جھوٹے دکھ سے تم کو کب تک دکھ پہنچاؤں گا
تم تو وفا میں سر گرداں ہو شوق میں رقصاں رہتی ہو
مجھ کو زوالِ شوق کا غم ہے ' میں پاگل ہو جاؤں گا
جیت کے مجھ سے خوش مت ہونا میں تو اک پچھتاوا ہوں
کھوؤں گا ' کڑھتا رہوں گا 'پاؤں گا ٬ پچھتاؤں گا
عہدِ رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم میرے ساتھ رہو گی تو میں تنہا ہو جاؤں گا
شام کہ اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھ ڈوبنے لگتا ہے
تم مجھکو اتنا نہ چاہوں میں شایر مر جاؤں گا
عشق کسی منزل میں آکر اتنا بے فکر نہ رہو
اب بستر پہ لیٹوں گا اور لیٹتے ہی سو جاؤں گا
تھکا دیا ہے تمھارے فراق نے مجھ کو
کہیں میں خود کو گرا لوں اگر اجازت ہو
اب اس کا نام بھی کب یاد ہوگا
جسے ہر دم بھلایا جا رہا ہے
روز کرتے ہو تم طبیب نیا
اس طرح زخم تو نہیں بھرتے
غزل
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت ہوئی
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں
چیختا ہوں بدن کی عسرت میں
یہ کچھ اسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
آ گ لگ گئی اس عمارت میں
زندگی کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
حاصلِ کن ہے یہ جہاں خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
پھر بنایا خدا نے آ دم کو
اپنی صورت پہ ایسی صورت میں
اور پھر آ دمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں
جون ایلیا
ہجر کی نذر تو دینی ہے اسے
سوچتا ہوں کہ بُھلا دوں اس کو
(جون ایلیا)
0 Comments