Saghar Siddiqui poetry

 ساغر صدیقی صاحب کی شاعری 


Download 👇

 

غزل

فضا مغموم ہے ساقی اٹھا چھلکائیں پیمانہ

اندھیرا بڑھ چلا ہے لا ذرا قندیل میخانہ

بہ فیضِ زندگی گذرے ہیں ایسے مرحلوں سے ہم

کہ اپنے راستے میں اب نہ بستی ہے نہ ویرانہ

بس اتنی بات پر دشمن بنی ہے گردشِ دوراں

خطا یہ ہے کہ چھیڑا کیوں تری زلفوں کا افسانہ

چراغِ زندگی کو ایک جھونکے کی ضرورت ہے

تمہیں میری قسم ہے پھر ذرا دامن کو لہرانا

دلوں کو شوق سے روندو خرامِ ناز فرماؤ

اگر محشر ہوا تو پھر مجھے مجرم نہ ٹھہرانا 

ساغر صدیقی 


YouTube video Link 🔗👇

https://youtu.be/o9U82e5YdDc 


Download video 👇

Saghar Siddiqui poetry 


غزل 

روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنم رقصاں ہے
بیداد مشیت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

احساس کے مے خانے میں کہاں اب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شدت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کچھ ماضی کے عیار سجن
احباب کی چاہت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

کانٹوں سے بھرا ہے دامن دل شبنم سے سلگتی ہیں پلکیں
پھولوں کی سخاوت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 



غزل 

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں


تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں

ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں


دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگِ اُمید کے اسرار نظر آتے ہیں


میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں


کل جسے چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں


حشر میں کون گواہی میری دے گا ‘ ساغر ‘

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں


ساغر صدیقی 


غزل 

راہ گذر کا چراغ ھیں ، ھم لوگ

آپ اپنا سراغ ھیں ، ھم لوگ


جل رھے ھیں ، نہ بجھ رھے ھیں

کسی کے سینے کا داغ ھیں ، ھم لوگ؟؟


خود تہی ھے ، مگر پِلاتے ھیں

میکدے کا ایاغ ھیں ، ھم لوگ


دشمنوں کو بھی ، دوست کہتے ھیں

کتنے عالی دماغ ھیں ، ھم لوگ


چشم تحقیر سے نہ دیکھ

دامنوں کا فراغ ھیں ، ھم لوگ


ایک جھونکا نصیب ھے ، ساغر

اُس گلی کا چراغ ھیں ، ھم لوگ


"ساغر صدیقی" 


غزل 

ھے دُعا یاد ، مگر حرفِ دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو ، اندازِ نَوا یاد نہیں


میں نے پَلکوں سے ، درِ یار پہ دستک دی ھے

میں وہ سائل ھُوں ، جسے کوئی صدا یاد نہیں


ھم نے جن کے لیے ، راھوں میں بچھایا تھا لہُو

ھم سے کہتے ھیں وھی ، عہدِ وفا یاد نہیں


کیسے بَھر آئیں ، سرِ شام کسی کی آنکھیں ؟؟

کیسے تَھرائی چراغوں کی ضیا ، یاد نہیں


صرف دُھندلائے ستاروں کی ، چمک دیکھی ھے

کب ھُوا ، کون ھُوا ، کس سے خفا ، یاد نہیں


زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ھے

جانے کس جرم کی پائی ھے سزا ، یاد نہیں


آؤ , ایک سجدہ کریں ، عالمِ مدھوشی میں

لوگ کہتے ھیں ، کہ ساغر کو خدا یاد نہیں


”ساغر صدیقی“



Post a Comment

0 Comments