احمد فراز کی شاعری
Video 👇
غزل
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
پر کیا کریں ہمیں اک دوسرے کی عادت ہے
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے
ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے
وصال میں بھی وہی ہے فراق کا عالم
کہ اسکو نیند مجھے رتجگے کی عادت ہے
یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں
میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے
یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے
احمدفراز
Other social media links of shayeri Lover
👇👇
https://pin.it/8k45KRd
https://instagram.com/shayerilover3?utm_medium
https://www.facebook.com/Shayeri-Lover-112502207874821/
https://youtube.com/channel/UCcLNURqYghh4phG63RJPypA
Original video 👇
Ahmad faraz best poetry
غزل
وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
خوشا وہ لوگ کہ محرومِ التفات رہے
ترے کرم کو بہ اندازِ سادگی نہ لیا
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے
کسی نے سنگ اُٹھایا ، کسی نے مینا لیا
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
احمد فراز
غزل
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
مَیں وہ محروم کہ جیسے کوئی ویرانہ ہو
تُو وہ خوش فہم خرابوں سے خزانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لُٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پُرانے مانگے
زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فراز
مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
احمد فراز
غزل
ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے
دیکھ آ کر کبھی اُن کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے
وصفِ مئے اور صفتِ یار کے مضموں کے سوا
ناصحا ! تیرے سخن یاد نہیں ہونے کے
یارِ بد عہد کا کتنا بڑا احساں ہے کہ ہم
اب کسی کے لئے برباد نہیں ہونے کے
اُس جفا جُو کو دعا دو کہ اگر وہ نہ رہا
پھر کسی سے ستم ایجاد نہیں ہونے کے
آج پھر جشن منایا گیا آزادی کا
کل گھروں پر کئی افراد نہیں ہونے کے
اتنے آرام طلب ہو تو محبت میں فراز
میرؔ بن جاؤ گے , فرہاد نہیں ہونے کے
احمد فراز
غزل
ﺍِﻧﮩﯽ ﺧﻮﺵ ﮔﻤﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﺅ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺯﺧﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﮐﮭﺎﺅ
ﯾﮧ ﺍﺩﺍﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﻭ ، ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺩ ﮐﻮ ﺟﮕﺎﺅ
ﻭﮦ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ، ﺟﻮ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﯽ ﭘﻮﺭﯼ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣَﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻨﺎﺅﮞ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻨﺎﺅ
ﯾﮧ جدﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﺑﮍﯼ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ، ﻣِﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﺟﺎﺅ
(ﺑﻌﺾ ﻏﺰﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ)
ﯾﮧ جدﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﺑﮍﯼ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﻟﻮﭨﺎ ، ﻣِﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﺟﺎﺅ
ﮐﺴﯽ ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﯾﮧ ﺟﻨﻮﮞ ﻓﺮﺍز ﮐﺐ ﺗﮏ
ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﻼ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ
ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺮﺍﺯ
غزل
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﺑُﺠﮭﺎ ﮨﻮ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﭘﺮﭼﮭﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﻣﺮ ﺟﺎیئے ﺟﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺥ ﻟﮩﺮ ﮨﮯ ﻣﻮﺝِ ﺳﭙﺮﺩﮔﯽ
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﻧﮕﮍﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﮨﺮ ﺣﺴﻦِ ﺳﺎﺩﮦ ﻟﻮﺡ ﻧﮧ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮ ﺳﮑﺎ
ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﻣﺰﺍﺝِ ﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﮩﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﺬﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮨﯽ ﻟﮯ ﺑﺠﮭﮯ
ﺑﺎﺕ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﺨﻦ ﺁﺭﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﮐﺎ ﻋﺸﻖ ﺍﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﻓﺮﺍﺯ
ﺩﻝ ﺧﻮﺩ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﺍﺋﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺮﺍﺯ
شکریہ
0 Comments