میر تقی میر کی شاعری
انتخاب از دیوانِ سوم(میر تقی میر)
غزل
جب سے چلی چمن میں ترے رنگ پاں کی بات
سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات
یاں شہر حسن میں تو کہیں ذکر بھی نہیں
کیا جانیے کہ مہر و وفا ہے کہاں کی بات
اختر شناس کو بھی خلل ہے دماغ کا
پوچھو اگر زمیں سے کہیں آسماں کی بات
ایسا خدا ہی جانے کہ ہو عرش یا نہ ہو
دل بولنے کی جا نہیں کیا اس مکاں کی بات
کیا لطف جو سنو اسے کہتے پھرا کرو
یوں چاہیے کہ بھول وہیں ہو جہاں کی بات
لے شام سے جہاں میں ہے تا صبح ایک شور
اپنی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتی یاں کی بات
اوباش کس کو پوچھتے ہیں التفات سے
سیدھی کبھو سنی نہیں اس بد زباں کی بات
ہر حرف میں ہے ایک کجی ہر سخن میں پیچ
پنہاں رہے ہے کب کسو کی ٹیڑھی پاں کی بات
کینے سے کچھ کہا ہی کیا زیر لب مجھے
کیا پوچھتے ہو میر مرے مہرباں کی بات
میر تقی میر
غزل
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانۂ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے!
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے
لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز
دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
غزل
شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
میر تقی میر
کار دل اس مہ تمام سے ہے
کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے
تم نہیں فتنہ ساز سچ صاحب
شہر پرشور اس غلام سے ہے
بوسہ لے کر سرک گیا کل میں
کچھ کہو کام اپنے کام سے ہے
کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے
کب وہ مغرور ہم سے مل بیٹھا
ننگ جس کو ہمارے نام سے ہے
خوش سرانجام وے ہی ہیں جن کو
اقتدا اولیں امام سے ہے
شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
سر جھکاؤں تو اور ٹیڑھے ہو
کیا تمھیں چڑ مرے سلام سے ہے
سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
.........
غزل
لیتے ہیں تیرے در سے گدا پوست تخت فقر
پاتے ہیں تیرے در سے شہا مکنت و جلال
جب تک جیوں میں دل میں مرے آرزو ہے یہ
ہوں سر سے تیرے زائر درگہ کا پائمال
پھر بعد مرگ حوض پہ کوثر کے یا علی
جاگہ مری ہو حشر کی تیری صف نعال
میر تقی میر
غزل
چپ رہ اب نالوں سے اے بلبل نہ کر آزار دل
کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل
ابتدائے خبط میں ہوتا تدارک کچھ تو تھا
اب کوئی سنبھلے ہے مجھ سے وحشت بسیار دل
یک توجہ میں رہے ہے سیر اس کی عرش پر
عقل میں آتے نہیں ہیں طرفہ طرفہ کار دل
باغ سے لے دشت تک رکھتے ہیں اک شور عجب
ہم اسیران قفس کے نالہ ہائے زار دل
اس سبک روحی پہ جوں باد سحر در در پھرے
زندگی اب یار بن اپنی ہوئی ہے بار دل
تنگی و وسعت سے اس کی اے عبارت ساز فہم
میرؔ کچھ سمجھے گئے نہ معنی اسرار دل
میر تقی میر
غزل
ہم اِس لئے بھی تو بازار تک نہیں آتے،
کے خواب چَل کے خریدار تک نہیں آتے،
کوئی تو ہے جو ہماری خبر بھی رکھتا ہے،
یونہی تو تذکرے اخبار تک نہیں آتے،
ہمارا ہونا نا ہونا بھی کوئی ہونا تھا !
اگر یہ مرحَلے اِظہار تک نہیں آتے،
ہماری اپنی فقیری ہے، بادشاہی ہے،
ہمارے مسَٔلے دربار تک نہیں آتے،
ہماری شاعری پر گفتگو کروگے تم،
تمہیں تو میٓر کے اشعار تک نہیں آتے۔
اُستاد میر تقی میر 🔥
غزل
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
میر تقی میر
غزل
شاعر: میر تقی میر
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانۂ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے!
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے
لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز
دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
غزل
میر تقی میرؔ کی غزل کا ایک قطعہ ۔۔۔
جو ایک انتہائی خوبصورت فلم" عمل" میں ڈاکٹر شوا نے اپنی آواز میں ادا کیا, لطف لیجیے ۔ 💚🙂
رہی ناگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جاے گئی طبع بدگماں میری
وہ نقشِ پائے ہوں میں مٹ گیا ہو جو رہ میں
نہ کچھ خبر ہے ، نہ سدھ ہےگی رہرواں میری
شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خواب پاسباں میری
اسی سے دور رہا، اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمر عزیز ، آہ رائیگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشان کہاں کہاں میری
نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ
کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری
رہا میں در پس دیوار باغ مدت لیک
گئی گلوں کے نہ کانوں تکلک فغاں میری
ہوا ہوں گریہ خونیں کا جب سے دامن گیر
نہ آستین ہوئی پاک دوستاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہاں میں جا کر نظر جہاں میری
غزل
رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں، آنکھوں کو اُن میں گڑوئیے
اخلاصِ دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے
اب جان جسمِ خاک سے تنگ آگئی بہت
کب تک اِس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے
آلودہ اُس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میر
آبِ حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے
میر تقی میر ___
0 Comments