جون ایلیا شاعری

 جون ایلیا کی شاعری 


غزل 


وہ پرندے بھی ساتھ لایا تھا

میں نے جس پیڑ کو بلایا تھا


تیرا ہنسنا بھی کیا مصیبت ہے

میں کوئی بات کرنے آیا تھا


یہ ہوائیں بھی کتنی جھوٹی ہیں

ہم نے بس ہاتھ ہی ملایا تھا


پھر کوئی بات آ گئی دل میں

میں اسے پاس لے ہی آیا تھا


وہ تو حیرت میں ڈالنا تھا اسے

کون دریا کو روک پایا تھا


تتلیاں بھر گئیں تھیں کمرے میں

پھول دیوار پر بنایا تھا


وہ محبت اگر نہیں تھی حسنؔ

اس نے چائے میں کیا ملایا تھا 






غزل 

( جون ایلیا کی ایک غیر مطبوعہ غزل )


مَیں کیا کروں' مجھے اظہار تک نہیں آتا

ہے اُس سے پیار، مگر پیار تک نہیں آتا


سخن تو ذات کی بربادیءِ ہمیشہ ہے

یہ سلسلہ کبھی گھر بار تک نہیں آتا


چُرا کے لے گئے گفتار کو مری ' وہ یار

جنہیں طریقہءِ گفتار تک نہیں آتا


فغاں ' اُو میری زلیخا! کہ ہوں میں وہ یوسُف

جو ایک دَم کو بھی بازار تک نہیں آتا


عجب شکَوہ ہے میرا 'عجب مری نخوت

ہوں میں وہ شاہ جو ' دربار تک نہیں آتا


یہ حشر ِ ناز کہ بس' اور یہ تیز تیز نفَس

تمہیں سلیقہءِ انکار تک نہیں آتا


( جون ایلیاؑ )




غزل 


جون ایلیا کے نام ایک غزل


خود سے ڈر گئی ہو کیا

مجھ پہ مر گئی ہو کیا


وہ جو میں نے سوچا تھا

تم وہ کر گئی ہو کیا


کیا سمٹ چکا ہوں میں؟

تم بکھر گئی ہو گیا


ہاں اجڑ چکا ہوں میں

تم سنور گئی ہو کیا


ہنس رہی ہو بے مطلب

غم سے بھر گئی ہو کیا


دھول دھول ہے جیون

تم گزر گئی ہو کیا


جاذل 




غزل 



تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگراجازت ہو 


تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں

بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو


تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں

کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو


جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا

یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو


کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی

میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو


تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی

کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو


جون ایلیا 




غزل 




عمرگزرے گی امتحان میں کیا

داغ ھی دیں گے مجھ کو دان میں کیا


میری ہربات بے اثر ہی رہی

نقص ھے کچھ مرے بیان میں کیا


بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا


مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں

یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا


اپنی محرومیاں چھپاتےہیں

ہم غریبوں کی آن بان میں کیا


وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے

اب بھی ھوں میں تری امان میں کیا


یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا 


ہے نسیم بہار گرد آلود

خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا


یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

جون ایلیا




غزل 


سایہ ذات سے بھی رم عکس صفات سے بھی رم

دشتِ غزل میں آکے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے


جادو شوق میں پڑا قحط غبارِ کارواں

واں کے شجر تو سر بہ سر دست سوال ہو گئے


سخت زمیں پرست تھے عہد وفا کے پاس دار

اڑ کے بلندیوں میں ہم گرد ملال ہو گئے


شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی

خون بہا مگر تیرے ھاتھ تو لال ہو گئے 

جون ایلیا صاحب 




غزل 



دل میں کم کم ملال تو رکھیے

نسبتِ ماہ و سال تو رکھیے

 

آپ کو اپنی تمکنت کی قسم

کچھ لحاظِ جمال تو رکھیے

 

صبر تو آنے دیجیے دل کو

اپنا پانا محال تو رکھیے

 

رہے جاناں کی یاد تو دل میں

دشت میں اِک غزال تو رکھیے


آپ اپنی گلی کے سائل کو

کم سے کم پر سوال تو رکھیے


جانے مجھ سے یہ کون کہتا ہے

آپ اپنا خیال تو رکھیے


تیغ تو جونؔ پھینک دیجیے مگر

ہاتھ میں اپنے ڈھال تو رکھیے


ڈھونڈ کر لائیے کہیں سے ہمیں

اپنی کوئی مثال تو رکھیے

 

حالتِ فرقتِ ہمیشہ میں

درمیاں کوئی حال تو رکھیے

 

آج دو لمحہ اپنی بانہوں کو

میری بانہوں میں ڈال تو رکھیے

 

ایک ناسور لے کے آیا ہوں

خواہشِ اندمال تو رکھیے

 

ایک شے احترامِ علم بھی ہے

اس کا کچھ کچھ خیال تو رکھیے

 

ڈھونڈ کر لائیے کہیں سے ہمیں

اپنی کوئی مثال تو رکھیے

 

ہے نگاہِ ہَوَس مِری حاضر

اپنے گالوں کو لال تو رکھیے

 

ناف پیالہ نہ آپ چھلکائیں

اس کو ہم پر حلال تو رکھیے

 

ہے وہ ناپید، ہو مگر خود میں

طورِ ہجر و وِصال تو رکھیے

 

جونؔ بے حال تو ہو لیکن آپ

حالتِ حالِ حال تو رکھیے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جون ایلیا

Post a Comment

0 Comments