Imran aami poetry

 عمران عامی صاحب کی شاعری 



غزل 

چُپ رہوں تو مجھے بیمار کہا جاتا ہے 

بول اُٹھتا ہوں تو غدار کہا جاتا ہے 

تم میرے ساتھ ذرا سوچ کے چلنا کے مجھے 

اِن دنوں راہ کی دیوار کہا جاتا ہے 

آئیے بیٹھئے، وہ آپ تھے، اچھا اچھا

آپ کو صاحب دستار کہا جاتا ہے 

جس طرح بول رہی ہیں تیری آنکھیں عامی

ایسی خاموشی کو اظہار کہا جاتا ہے 


عمران عامی 


Download video 👇




Imran aami poetry


غزل 
خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں‌
 ہمارے شہر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں

میں دیکھ آیا ہوں اِک ایسا کارخانہ ‘ جہاں
 چراغ توڑ کے سورج بنائے جاتے ہیں‌

یہ کون لوگ ہیں ‘ پہلے کبھی نہيں دیکھے
 جو کھینچ تان کے منظر پہ لائے جاتے ہیں

اے آسماں تجھے اُن کی خبر بھی ہے کہ نہيں
 جو دن دیہاڑے زمیں سے اٹھائے جاتے ہیں

یہ ساری فِــلم ہی اچّھـی طـــرح بنی ہوئی ہے
 مگر جو سِِــین اچانک دکھائے جاتے ہیں

میں اِس لیے بھی سَــمُندر سے خوف کھاتا ہوں
 مجھـے نصاب میں دریـا پڑھائے جاتے ہیں

کہیں مِلیں گے تو پھر جان جاؤ گے’ عـامـی
 ہـم ایسـے ہیـں نہيـں ‘ جیسـے بتائے جاتے ہیں

عمران عامی 



غزل 

عجب مذاق رَوا ہے' یہاں نظام کے ساتھ

وہی یزید کے ساتھی ' وہی امام کے ساتھ


میں رات اُلجھتا رہا ' دِین اور دُنیا سے

غزل کے شعر بھی کہتا رہا 'سلام کے ساتھ


سِتم تو یہ ہے کہ کوئی سمجھنے والا نہيں

مرے سکوت کا مطلب مرے کلام کے ساتھ


یہ جھوٹ موٹ کے درویش پھر کہاں کُھلتے

کہ میں شراب نہ رکھتا اگر طعام کے ساتھ


ضرور اس نے کوئی اِسم پڑھ کے پھونکا ہے

لپٹ رہی ہیں جو شہزادیاں غلام کے ساتھ


عمران عامی 



غزل 


‏خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں‌

ہمارے شہر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں


میں دیکھ آیا ہوں اِک ایسا کارخانہ ‘ جہاں

چراغ توڑ کے سورج بنائے جاتے ہیں‌


یہ کون لوگ ہیں ‘ پہلے کبھی نہيں دیکھے

جو کھینچ تان کے منظر پہ لائے جاتے ہیں 


‏اے آسماں تجھے اُن کی خبر بھی ہے کہ نہيں

جو دن دیہاڑے زمیں سے اٹھائے جاتے ہیں


یہ ساری فِــلم ہی اچّھـی طـــرح بنی ہوئی ہے

مگر جو سِِــین اچانک دکھائے جاتے ہیں


کہیں مِلیں گے تو پھر جان جاؤ گے’ عـامـی

ہـم ایسـے ہیـں نہيـں ‘ جیسـے بتائے جاتے ہیں

عمران عامی 



غزل 

ہزار قصے تھے داستانوں میں رہ گئے ہیں 

ہمارے یُوسف تو قید خانوں میں رہ گئے ہیں


حضور کہنا ' کسی کا جُھک کر سلام کرنا

یہ رکھ رکھاؤ بھی کچھ گھرانوں میں رہ گئے ہیں 


وہ لوگ جن سے چراغ روشن تھے باغ روشن

کوئی بتائے گا ' کِن زمانوں میں رہ گئے ہیں 


اگر کہو تو میں پینٹ کر کے دکھاؤں عامی 

وہ قہقہے بھی ' جو قہوہ خانوں میں رہ گئے ہیں


       عمران عامی 



غزل 

مہمان بن کے آیا ہے، مہمان بن کے رہ

اتنا لگاؤ اچھا نہیں میزبان سے


پہلے تو اس نے شعر سنے مجھ سے میر کے

پھر اس کو عشق ہو گیا اردو زبان سے


عمران عامی 


شکریہ



Post a Comment

0 Comments