خلیل الرحمٰن قمر صاحب کی شاعری
غزل
تم نے بکنا ہے تو بیوپار بھی ہو سکتا ہے
چاہنے والا خریدار بھی ہو سکتا ہے
اپنے دشمن کوابھی شک کی نگاہوں سے نہ دیکھ
تیرا قاتل تو یار بھی ہو سکتا ہے
عشق سُولی ہے تو مرنے کی روایت کیسی
پیار زندہ تو سرِدار بھی ہو سکتا ہے
اُس کامنظورِ نظر کون ہے معلوم نہیں
مجھ سا کمبخت گنہگار بھی ہو سکتا ہے
مجھ سے دامن نہ چھڑا مجھ کو بچا کر رکھ لے
مجھ سے اک روز تجھے پیار بھی ہوسکتا ہے
Original video download 👇
More poetry ghazals
غزل
میرے پاس تم ہو
بھول جانے کا ہنر مجھ کو سکھاتے جاؤ
جا رہے ہو تو سبھی نقش مٹاتے جاؤ
چلو رسما" ہی سہی مڑ کے مجھے دیکھ تو لو
توڑتے توڑتے تعلق کو نبھاتے جاؤ____
کبھی کبھی یہ مجھے ستائے
کبھی کبھی یہ رلائے___
فقط میرے دل سے اتر جائیے گا
بچھڑنا مبارک بچھڑ جائیے گا___
میں سمجھا تھا
تم ہو تو کیا اور مانگوں..؟؟
میری زندگی میں میری آس تم ہو
یہ دنیاء نہیں ہے میرے پاس تو کیا
میرا یہ بھرم تھا میرے پاس تم ہو
مگر تم سے سیکھا
محبت بھی ہو تو دغاء کیجیئے گا
مکر جائیے گا___
تیرا ہاتھ کل تک میرے ہاتھ میں تھا
تیرا دل دھڑکتا تھا دل میں ہمارے
یہ مخمور آنکھیں جو بدلی ہوئی ہیں
کبھی ہم نے ان کے ہیں صدقے اتارے
کہیں اب ملاقات ہو جائے ہم سے
بچا کے نظر کو گزر جائیے گا _
کہاں جوڑ پائیں گے ہم دھڑکنوں کو،
کے دل کی طرح ہم بھی ٹوٹے ہوئے ہیں
خلیل الرحمٰن قمر
غزل
خود کو جینے کی تسلی میں بہانے نہیں دیتا
اب تیری یاد بھی آۓ تو میں آنے نہیں دیتا
غم سے کہتا ہوں کہ آؤ ،تمہیں جانے نہیں دوں گا
اور وہ آ جاۓ تو پھر اُسکو میں جانے نہیں دیتا
یہ تیرا ظرف ہے تُو لوٹ کے آیا ہی نہیں
یہ میرا ظرف ہے پھر بھی تجھے طعنے نہیں دیتا
میں بھی زخموں کی نمائش میں کھڑا ہوں لیکن
کوئی روح کے زخم مجھ کو دکھانے نہیں دیتا
(خلیل الرحمٰن قمر)🥀
غزل
اَشکِ ناداں سے کہو بعد میں پچھتائیں گے
آپ گِر کر میری آنکھوں سے کدھر جائیں گے
اپنے لفظوں کو تکلُم سے گِرا کر جاناں
اپنے لہجے کی تھکاوٹ میں بکھر جائیں گے
تم سے لے جائیں گے ہم چھین کے وعدے اپنے
اب تو قسموں کی صداقت سے بھی ڈر جائیں گے
اِک تیرا گھر تھا میری حدِ مُسافت لیکن
اب یہ سوچا ہے کہ ہم حد سے گزر جائیں گے
اپنے افکار جلا ڈالیں گے کاغذ کاغذ
سوچ مر جائے گی تو ہم آپ بھی مر جائیں گے
اِس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تم سے ملے
ہم نے سوچا ہے کہ ہم تم سے بچھڑ جائیں گے💔
خلیل الرحمٰن قمر
شکریہ
0 Comments