Syed Naseer u din naseer poetry

 سید نصیر الدین نصیر صاحب کی شاعری 



غزل

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا

حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا


میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے

کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا


تُو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے

کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا


تیرے صدقے، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا

جس نے، جس رنگ میں چاہا مجھےرُسوا کرنا


کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم

نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا


یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر

فیصلہ میرا سپردِ شہہِ بطحا کرنا


آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا

تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا


شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا

بزمِ عالم کو سجا کر ترا چرچا کرنا


تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب

چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا


طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام

دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایا کرنا


دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر

حسنِ اخلاق سے غیروں کو وہ اپنا کرنا


کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے

دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا


اُن صحابہ کی خوش اطوار نگاہوں کو سلام

جن کا مسلک تھا طوافِ رخِ زیبا کرنا


مجھ پہ محشر میں نصیرؔ اُن کی نظر پڑ ہی گئی

کہنے والے اسے کہتے ہیں، خدا کا کرنا



Download video 👇

Naseer u din naseer poetry


غزل 
نصیر الدین نصیر 

نہ تم آئے شبِ وعدہ، پریشاں رات بھر رکھا
دیا امید کا میں نے جلا کر تا سحر رکھا

وہی دل چھوڑ کر مجھ کو کسی کا ہوگیا آخر
جسے نازوں سے پالا جس کو ارمانوں سے گھر رکھا

جبیں کو مل گئی منزل ،مذاقِ بندگی ابھرا
جنوں میں ڈوب کر جس دم تری چوکھٹ پہ سر رکھا

کہاں ہر ایک تیرے درد کی خیرات کے لائق
کرم تیرا کہ تو نے مجھ کو برباد نظر رکھا

غمِ دنیا و ما فیها کو میں نے کر دیا رخصت
ترا غم تھا جسے دل سے لگائے عمر بھر رکھا

سنا ہے کھل گئے تھے انکے گیسو سر گلشن میں
صبا تیرا برا ہو تو نے مجھ کو بےخبر رکھا

کبھی گزریں تو شاید دیکھ لوں میں اک جھلک ان کی
اسی امید پر مدفن قریبِ رہ گزر رکھا

جو خط غیروں کے آئے اس نے دیکھے دیر تک، لیکن
مرا خط ہاتھ میں لے کر ادھر دیکھا ادھر رکھا

یہ اس کے فیصلے ہیں جس کے حق میں بھی جو کر ڈالے
کسی کو در دیا اپنا ،کسی کو دربدر رکھا

بھری محفل میں ناحق رازِ الفت کر دیا افشا
محبت کا بھرم تو نے نہ کچھ اے چشم تر رکھا

کوئی اس طائرِ مجبور کی بے چارگی دیکھے
قفس میں بھی جسے صیاد نے بے بال و پر رکھا

یہ ممکن تھا ہم آ جاتے خردمندوں کی باتوں میں
خوشا قسمت کہ فطرت نے ہمیں آشفتہ سر رکھا

سر آنکھوں پر جسے اپنے بٹھایا عمر بھر ہم نے
اسی ظالم نے نظروں سے گرا کر عمر بھر رکھا

کہاں جا کر بھلا یوں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے
نصیر اچھا کیا تم نے ہمیشہ ایک ہی در پہ رکھا


غزل

کیجیے جو ستم رہ گئے ہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں

بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئےکھوئےسےہم رہ گئےہیں​

دو قدم چل کے راہِ وفا میں
تھک گئے تم کہ ہم رہ گئے ہیں​

بانٹ لیں سب نے آپس میں‌خوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں​

اب نہ اٹھنا سرہانے سے میرے
اب تو گنتی کے دم رہ گئے ہیں​

قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہروٹھہرو! کہ ہم رہ گئے ہیں​

دیکھ کر ان کےمنگتوں کی غیرت
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں​

ان کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں​

اے صبا ! ایک زحمت ذرا پھر
اُن کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں

کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تم ایک ہم رہ گئے ہیں​

آج ساقی پلا شیخ کو بھی
ایک یہ محترم رہ گئے ہیں​

یہ گلی کس کی ہے اللہ اللہ
اٹھتے اٹھتے قدم رہ گئے ہیں​

وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے
دل پہ نقش قدم رہ گئے ہیں​

دل نصیر ان کا تھا ،لے گئے وہ
ہم خدا کی قسم رہ گئے ہیں

 سید نصیر الدین نصیر​

دورِ ماضی کی تصویرِ آخر
اے نصیر ! ایک ہم رہ گئے ہیں 

Post a Comment

0 Comments