علامہ اقبال کی شاعری
غزل
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کے مجموعۂ کلام 'بال جبریل' کی غزل
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی!
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی!
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی!
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے؟
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہوتو ہے سوزِ سخن عینِ حیات
ہو نہ روشن، تو سخن مرگِ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
(علامہ اقبال
غزل
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کے مجموعہ کلام 'بال جبریل' کی غزل
کمالِ جوشِ جُنوں میں رہا مَیں گرمِ طواف
خدا کا شُکر، سلامت رہا حرم کا غلاف
یہ اتّفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور
ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعراف
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
سُرور و سوز میں ناپائدار ہے، ورنہ
مئے فرنگ کا تہ جُرعہ بھی نہیں ناصاف
غزل
علامہ اقبال
اک دانش نورانی ،اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی،حیرت کی فرادانی !
اس پیکرِ خاکی میں اک شے ہے ،سو وہ تیری
میرے لئے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی !
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
مجھ کو تو سکھا دی ہے ،افرنگ نے زنددیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی
تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی
تیرے بھی صنم خانے ،میرے بھی صنم خانے
دونو کے صنم خاکی ،دونو کے صنم فانی !
(شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال )
( کلام بالِ جبرئیل )
غزل
غزل۔۔۔۔۔۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے محرومی خذف چین لب ساحل ہوں میں
ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں
بزم ہستی ! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
ڈھونڈھتا پھرتا ہے کیا اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں میں ۔
غزل
وصال سے چند روز قبل جب علامہ اقبال علیل تھے تب جاوید کو بلوایا اور کہا کہ جاوید میری میراث صرف یہ ہے۔۔۔یہ کہہ کر ایک قرآن مجید تھما دیا۔جاوید اقبال کہتے ہیں کہ جب کھول کہ دیکھا تو ایک حرف بھی ایسا نہ تھا جس پر آنسو نہ گرے تھے اور تمام اوراق بھیگ کر خستہ ہو چکے تھے۔بلاشبہ علامہ ایک درویش منش انسان تھے۔اللہ درجات بلند فرماے۔۔آمین
کلامِ اقبال
پیشکش۔۔۔۔۔محمد زبیر اشرف
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی
غزل
پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گُلستاں ہو
تُو خاک کی مُٹھّی ہے، اجزا کی حرارت سے
برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں بیاباں ہو
تُو جنسِ محبّت ہے، قیمت ہے گراں تیری
کم مایہ ہیں سوداگر، اس دیس میں ارزاں ہو
کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری
تُو نغمۂ رنگیں ہے، ہر گوش پہ عُریاں ہو
اے رہروِ فرزانہ! رستے میں اگر تیرے
گُلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
ساماں کی محبّت میں مُضمَر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل، غارت گرِ ساماں ہو
علامہ اقبال
غزل
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے میء لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
( علامہ اقبال )
علامہ اقبال کی شاعری پھر ایک نظر
ڈاکٹر حضرت علامہ محمد اقبال کی شاعرانہ خصوصیات
(۱) ابتدائیہ:
اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اسلام ہیں کہ باکل میر تقی میر کی طرح ان پر بھی ان ہی کا شعر اور اس کی حقیقت صادق آتی ہے ۔آپ نے جذب میں ڈوب کر فرمایا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حضرت علامہ اقبال سیالکوٹ میں میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا ۔والدین کی مذہب پرستی نے اقبال ؒ کے دل میں ایمان کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا ۔ اور بعد میں مولوی میر حسن کی صحبت نے مزید چار چاند لگا دئے ۔ گریجویشن کے بعد فلسفیانہ رخ سر تھا مس آرنلڈ کی خاص تربیت کی وجہ سے میسر آیا ۔ حضرتِ علامہ اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر ڈاکٹر انورسدید کچھ یوں فرماتے ہیں۔
’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا ۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘
اٹھائے کچھ ورق لالے نے ،کچھ نرگس نے ،کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
آپ نے گلشنِ شعر و ادب کی روش روِش پر ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو تا قیامت حضرتِ انسان کے قلوب و دہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔ شاید اس قبولِ عام کا احساس خود حضرتِ علامہ اقبالؒ کو بھی نہیں تھا ۔اسی لیے عالمِ بے خودی میں بہہ کر گویا ہوئے۔
اِقبال بھی اِقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں مسخر نہیں واللہ نہیں ہے
محاسنِ کلام:
حضرت ِ علامہ اقبال اپنے افکار و محسوسات کو حروف کی مالا میں پروتے گئے جس کی بدولت ان کا کلام مجموعہ ہائے خصوصیات بن گیا۔ آپ کے چند محاسنِ کلام درج ذیل ہیں :.
(۲)اقبال کا انوکھا اور اچھوتا اندازِ بیان:
حضرتِ علامہ اقبال کا کل کلام خوبصورت اندازِ بیان کی دلیل ہے ۔ آپ نے نظم کیلئے بھی غزل کا نرم ، شیریں اور حسین لہجہ اختیار کیا ۔ اپنے اس کلام کی خوبی کے بابت آپ خود فرماتے ہیں۔
اشعارملاحظہ ہو۔
اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے شاید
پھر بھی اتر جائے ترے دل میں میری بات
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا ،منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے ، جن پر ہی لب کشائی و جامہ پُرسائی ہو رہی تھی ۔آپ کی شاعری ایونِ ادب میں ایک نئی پر وقار اور با مقصد آواز ہے ۔آپ کا لہجہ ،موضوعات ،اور اندازِ بیان یکسر نرالہ اور نیا ہے ۔
(۳) اقبا ل کی شاعری کے ادوار اور ان کی اہمیت :
سر عبد القادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں آپ کی شاعری کو واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلا دور داغ دہلوی کی شوخی اور فکرِ غالب سے آراستہ و پیراستہ ہے ۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعده کرتے ہوئے عار کیا تھی
٭
موت یہ میری نہیں اجل کی موت ہے
کیوں ڈروں اس سے کہ مر کر پھر نہیں مرنا مجھے
(۴) فطری شاعر:
علامہ اقبال کا ظہور بیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک اہم واقعہ ہے ۔اقبال کو شعر کہنے کا عطیہ اللہ عزوجل کی خوص عنایت کے طفیل عطا ہوا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی آپ نے اساتذہ کے رنگ میں اشعار کہے ۔نمونہ ملاحظہ ہو:
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
آپ نے خود ہی اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعیُن کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیالات کو اپنی غزل کے سانچے میں ڈھالااور اپنی غزل میں قومی، اسلامی، نفسیاتی، اَخلاقی، سیاسی، تہذیبی اور سماجی موضوعات ۔ داخل کیے۔نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔
فردِ قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
٭
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اسی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے — ڈاکٹر سید عابد حسین کچھ یو گویا ہوئے۔
’’ اِقبال کی شاعری آبِ حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں۔‘‘
آپ نے امسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے سوچ ،سمجھ اور پرکھ کا ایک منفرد اپیغام دیا جو ، آج بھی جاری و ساری ہے جس سے آج کا مفکر خوب فیضیاب ہو رہا ہے۔
(۵) صاحبِ پیغام شاعر:
مولانا حالی نے جس شاعری کا آغاز کیا تھا اِقبالؔ اُسی شاعری کا نقطۂ کمال ہیں ۔
وہ نقیبِ زندگی تھا نعرۂ جبرئیل ؑ تھا
بے حسی کی رات میں احساس کی قِندیل تھا
اقبالؔ اردو ادب کے وہ پہلے شاعر ہیں جو مفکر بھی ہیں اور صاحبِ پیغام بھی۔اسی لئے وہ وجدانی کیفیت میں پکار اُٹھتے ہیں۔
میری نوائے پریشانی کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہو ں محرم راز درونِ مسیحانہ
آل احمد سرور اپنے نپے تُلے انداز میں فرماتے ہیں۔
” اقبال ؔ نے سب سے پہلے اردو شاعری کو زندگی کے مسائل سے آشکار کیا ۔حالیؔ ،اکبرؔ اور چکبستؔ کا کلام نقشِ اوّل ہے اور حضرتِ اقبال کا کلام نقشِ ثانی۔”
(۶) فلسفۂ خودی
اقبال کے تمام کلام میں اُن کا فلسفۂ خودی غالب ہے ۔ اقبال سے پہلے “خودی ” کے معانی غرور ،تکبر اور عز و ناز کے لیے جاتے تھے،لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اُسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا ۔اقبال نے خودی کے معنیٰ “قرب” کے لیے ہیں ۔خودی یقین کی گہرائی ہے ،سوزِ حیات ہے ،ذوقِ تخلیق ہے ،خود آگاہی ہے ،عبادت ہے ۔اسی لیے اقبال تربیتِ خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے ۔
اسی لیے آپ خود سرشاری کی کیفیت میں فرماتے ہیں:
اشعار ملاحظہ ہوں ۔
خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رِضا کیا ہے
٭
تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اُس کی خودی کو
ہو جائے مُلائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
(۷) عہد آفرین شاعر:
اقبال کی شاعری ایک مسلسل سفر ہے ،ایک مسلسل تجرِبہ ہے ،اِن تجربات کی بھٹی میں تپ کر ہی وہ کُندن تیار ہوا ہے جس کی دمک نے ایک بار پھر اُن شاہراہوں پر اُجالا پھیلا دیا ،جو دھندلکوں میں چھپ کر نظروں سے پوشیدہ ہو چکیں تھیں ۔ اقبال ہی اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ایک عہد پیدا کیا ہے اور اپنے عہد کے ذہن کو ترقی کی سمتوں سے روشناس کرایا ہے ۔اسی کیفیت سے سرشار ہو کر آل احمد سرور فرماتے ہیں۔
” یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جامُن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو شاعرِ شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقلاب کے نغمہ سُرا ہو گئے۔”
اشعار ملاحظہ ہوں۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ اُمراء کے در و دیوار کو ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو مُیَسّر نہ ہو روٹی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ ندم کو جلا دو
(۸) مُنظّم نظامِ فِکر۔
اقبال کے یہاں ایک منظم نظامِ فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے ۔خودی ،یقین ، عشق اور عملِ پیہم اُن کے فلسفے کے سب سے نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں ۔آپ نے اپنے اشعار میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے کو فَقر کا پرتو کہا ہے اور اللہ عزوجل کے احکام پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے ۔ بلندیوں پر اُڑنے والے پرندے کو “شاہین ” کہا ہے ۔یہاں آپ کی مراد مسلم نوجوان ہیں ۔
اشعار ملاحظہ ہوں ۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نِگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
٭
اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
٭
پلٹنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
(۹) ناقدین کی آراء۔:
مختلف تنقید نگاروں نے اقبال کی شاعری پر تبصرہ کیا اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت بجا سہی، لیکن وہ خود شاعری کی نسبت اپنے تصورات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اقبال نے اپنے دَور کے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی پس منظر میں عالمی منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
تمام ’شاعرانِ اثبات‘،مثلاً دانتے، ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں، انھی کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے
(فیض احمد فیض )
’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا ۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر انور سدید)۔
اقبال اُن معدودے چند شعرا میں سے ہیں، جو محض جذباتی خلوص کے بل پر ایک فلسفیانہ پیغام کو شاعری کی سطح تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔دوسری جانب وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اقبال فلسفی، مفکر،قومی راہبر اور مبلغ بھی تھے، لیکن جس نے ان کے پیغام کو اصل قوت اور دلوں میں گھر کر جانے کی صلاحیت بخشی، وہ ان کی شاعری ہی تھی ۔
( فیض احمد فیض)۔
” یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جامُن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو شاعرِ شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقلاب کے نغمہ سُرا ہو گئے۔”
۔(آل احمد سرور)۔
(۱۰) تبصرہ کچھ میری اپنی رائے میں:
مذکورہ بالا اشعار و خصوصیات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو انقلابی سوچ کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بھی استحکام بخشا اور اسی مساعی کے نتیجے میں آج مستحکم پاکستان ساری دنیا میں اپنی ضو فشانیاں بکھیر رہا ہے۔گویا اسے مسللمانوں کی حیاتِ ثانیہ ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
اس ضمن میں فیض احمد فیض کی رائے بڑی مستحکم نظر آتی ہے وہ اقبال کی شاعرانہ اکملیت کی بابت فرماتے ہیں :
’’غرض اقبالؒ کے کلام سے شاعر کی جو تصویر نمایاں ہوتی ہے اُس میں فِراق نصیب عاشق کا سوز و ساز اور حسرت ہے ۔بادشاہ کا سا غرور ،گداز کا سا حِلم ،صوفی کا سا استغناء ، بھائی کی سی محبت اور ندیم کی سی مورت ۔‘‘
الغرض اقبال کی شاعری میں ایک ایسا تنوع ہے جو آج کی نوجوان نسل کو کچھ کر گزرنے کا حؤصلہ بخشتا ہے ۔ساتھ ساتھ ایک کامل مسلمان اور سلجھا ہوا دانشور بھی عطاکرتا ہے ۔
آپ کی شاعری میں فکر و فلسفے کا ایسا گہرا رچاؤ ہے کہ جب ان کے کلام کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس اعتبار سے بھی ایک بہت عظیم شاعر ہیں ۔
بلا شبہ آپ کے کلام میں روانی بھی ہے اور متانت بھی ،برجستگی بھی ہے اور شائستگی بھی ،ندرتِ خیال بھی ہے اور جذبات کی مصوری بھی۔آپ کی شاعری میں صنائع و بدائع کا بڑا چنیدہ انتظام و انصرام موجود ہے ۔اسی خصوصیت کی بناء پر آپ کا کلام ایک مومن کیلیے چنگاری کا اثر رکھتا ہے ۔
لہٰذا اسی کیفیت سے متاثر ہوکر اقبال ؒ کے شاعرانہ کمالات کے بارے میں ہم بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق کی اس رائے سے متفق ہیں کہ :
’’ اقبال برِ صغیر ہی کے نہیں ،بنی نوع انسان کی لازوال تہذیب کے ایک بر گزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔”
آپ نے کیا خوب فرمایا :
یقینِ محکم ، عملِ پیہم ،محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
0 Comments